جادو کےلغوی معانی تو پوشیدہ اور مخفی چیز کے ہیں مگر اصطلاح میں سحر یا جادو سے مراد ایسے عجیب و غریب کام ہیں جن کے وجود میں آنے کے اسباب دکھائی نہ دیتے ہوں۔
جادو کو سمجھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی دو صفات ’’ارادہ‘‘ اور ’’مشیت‘‘ کو سمجھنا ضروری ہے ۔ارادہ کے معنی ہیں کسی امر (کام) کا قصد کرنا جس میں رضا شامل ہو، جبکہ مشیت میں رضا شامل نہیں ہو تی۔ عام اسباب کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت عمل میں آتی ہے، جبکہ کچھ اسباب کا ظہور صرف مشیتِ حق کے ماتحت ہوتا ہے جس میں اس کی رضا شامل نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر ایک بدکار آدمی بدکاری کرتا ہے تو اس کے نامۂ اعمال میں گناہ لکھ دیا جاتا ہے۔ یا تو اس کے بد اعمال کی شامت اس پر دنیا میں پڑتی ہے یا پھر آخرت میں اس کے لئے عذاب تیار ہو جاتا ہے اور یہ سارا سلسلہ حق تعالیٰ کی مشیت سے وقوع پاتا ہے مگر حق تعالیٰ اس پر راضی نہیں ہوتا۔ وہ راضی اس طرح تھا کہ وہ شخص پرہیزگار رہتا اور جنت کا مستحق بنتا۔ دوسرے لفظوں میں اسے ظہور میں لانے کا حق تعالیٰ نے ارادہ نہیں کیا، البتہ یہ اس کی مشیت تھی۔ جادو کا معاملہ بھی بالکل اسی طرح ہے جن اسباب سے جادو کے عجائبات ظاہر ہوتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے ارادے سے نہیں، یعنی حق تعالیٰ اس پر راضی نہیں۔ اس لئے ان اسباب کو اختیار کرنا قانونِ الٰہی میں حرام اور بڑا گناہ ہے، مگر کیونکہ یہ مشیتِ الٰہی کے ماتحت ہے اس لئے ان کا ظہور ہوجاتا ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ’’ جادو برحق ہے۔‘‘جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جادو ’’برحق‘‘ نہیں بلکہ’’با اثر‘‘ ہے۔ اس بات کو ہم ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ موسیٰ ں اورفرعون کے جادوگروں کا جب مقابلہ ہوا تو قرآن نے اسے یوں بیان کیا:
پھر جب انھوں نے (اپنی رسیوں اور لاٹھیوں کو زمین پر) ڈالا( تو انھوں نے) لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا اور انہیں ڈرا دیا اور وہ زبردست جادو (سامنے) لے آئے۔ اور ہم نے موسیٰ ںکی طرف وحی فرمائی کہ (اب) آپ ں اپنا عصاء (زمین پر) ڈال دیں تو وہ فوراً ان چیزوں کو نگلنے لگا جو انہوں نے فریب کاری سے وضع کر رکھی تھیں۔ پس حق ثابت ہو گیا اور وہ جو کچھ کر رہے تھے (سب) باطل ہو گیا۔ سو وہ (فرعونی نمائندے) اس جگہ مغلوب ہو گئے اور ذلیل ہو کر پلٹ گئے۔‘‘ الاعراف، ۱۱۶ ۔ ۱۱۹
ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ جو چیز حق کے سامنے ختم ہوجانے والی ہے وہ بااثر تو ہوسکتی ہے مگر برحق ہر گز نہیں ہوتی۔ جس یہودی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر جادو کیا تھا وہ حق پر نہیں بلکہ باطل پر تھا، کیونکہ جب قرآن مجید کی آخری دو سورتیں سورۃ الفلق اور سورۃالناس نازل ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جادو کا اثر ختم ہوگیا۔ اس لیے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جادو برحق ہے وہ غورکریں کہ برحق وہ چیز ہوتی ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احکامات کی نفی نہ کرے۔ اگر کوئی فعل جادوگر کی طرف سے ہوتا ہے تو وہ بااثر تو ہوسکتا ہے برحق ہرگز نہیں ہوسکتا۔
جادو کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لئے جادوگر کئی چلے کرتے ہیں، کئی قسم کی خطرناک اور گھناونی چیزوں کا استعمال کرتے ہیں، خوب گناہ کرتے ہیں تاکہ شیاطین ان سے خوش ہو جائیں اور انھیں شریر قسم کے جنات اور شیاطین کی مدد حاصل ہو جائے۔ جادوگر وں کی اپنی زندگی بھی بہت خراب گزرتی ہے۔ وہ عام طور پر اولاد بالخصوص اولادِ نرینہ سے محروم رہتے ہیںاور جن خطرناک چیزوں کو انہوں نے تابع کر رکھا ہوتا ہے وہ بھی انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔
اگر خدا نخواستہ آپ پر جادو ہو جائے تو کوشش کریں کہ خود اسے ختم کرنے کی بجائے اپنے قریب موجود روحانی معالج سے رابطہ کریں۔ اگرآپ کے قریب کوئی روحانی معالج نہ ہو تو آپ اعتماد اور یقین کے ساتھ مولانا علی آفاق صاحب سے رجوع کر سکتے ہیں۔ انشاء اللہ آپ کی بھرپور رہنمائی کی جائے گی اور آپ کو اپنے تمام مسائل سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نجات مل جائے گی۔ رابطے کے لئے آپ ہمارے ان آفیشیل نمبرز پر رابطہ کریں